ڈاکٹر عبدالکلام کہتےہیں

ڈاکٹر عبدالکلام کہتے ہیں:

 میں نے 22 سال تک پڑھایا۔

 میں نے کبھی حاضری نہیں لی کیونکہ کلاس اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ طلباء کو خود ہی آنا پڑتا تھا۔

 میں نے کبھی بھی کلاس روم میں خوف پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ کلاس روم طلباء کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔کوئی بھی طالب علم جو دیر سے آیا، میں نے شرکت کی اجازت دی، چاہے وہ کلاس ختم ہونے سے دس منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے ذمہ داری کا احساس۔

 میں نے کبھی بھی لفظ کو دو بار سے زیادہ نہیں دہرایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہر کوئی اتنی گہرائی سے سن رہا ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ۔

 میں نے کبھی بھی مکمل 90 منٹ تک نہیں پڑھایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اچھے، اوسط اور کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی مختلف ہوتی ہے۔

 میں نے کبھی نقد جرمانہ نہیں کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ کلاس میں کوئی یتیم یا غریب بچہ ہوگا۔

 میں نے اپنے طالب علموں کو کبھی اپنے دروازے کے پیچھے انتظار کرنے نہیں چھوڑا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہونا عزت نفس کو ختم کر دے گا۔

 میں نے ہمیشہ اجتماعی سزا کو انفرادی سزا سے بہترسمجھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ گروہ ناقابل فراموش تفریح ​​ہے، لیکن فرد دل دہلا دینے والا ہے۔

 میں نے ہمیشہ طالب علم کو بورڈ پر بلایا اور اس سے وہ پوچھتا جو کچھ وہ جانتا تھا

    منقول

Comments

Popular posts from this blog