Posts

Showing posts from October, 2022

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں

یہ اپریل 2007 ء کی بات ہے جب میں دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن میں فرائض منصبی انجام دے رہا تھا ناردرن سکاوٹس کے جوان ہم سے کار چوکیداری کا چارچ لینے کیلئے پہنچ چکے تھے سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع حسیب پوسٹ کے اکلوتے اگلو (برفانی گھر) میں چترال سکاوٹس کے ہم تین اور ناردرن سکاوٹس کے تین جوان قیام پذیر تھے چاروں طرف سے تین سے چار فٹ برف میں گھرا یہ اگلو بیک وقت ڈرائنگ روم ,ڈائننگ ہال اور بیڈ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی تھی جب غروب افتاب کیساتھ جگلوٹ کے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے حوالدار عبدالروف ہوشیار پوزیشن میں نماز کی نیت باندھ لیتے ساتھ ہی میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا میرے اسماعیلی دوست شیر بائز بیٹھے بیٹھے حق بندگی کی ادائیگی میں مصروف ہوتے نور بخشی مسلک کے عمر رسیدہ نائیک اکبر بہت ساری رکعتوں کیلئےکمر کس لیتے ۔اور رمبور چترال کے ہمارے کیلاش دوست تعلیم زار ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہوتے میں نے اگلو کے دروازے پر مارکر سے "بین الاقوامی عبادت خانہ " لکھا ہوا تھا ۔ برداشت اور رواداری کا یہ منظر بڑا دلفریب ہے محمد شیراز غریب (ج

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں (فوجی بڑے احمق ہوتے ہیں ) 2008 کا سوات اپریشن چل رہا تھا سرسینئی چوک میں ہم دو دنوں سے ریڈ الرٹ پوزیشن میں تھے اطلاعات تھیں کہ ہماری ذمہ داری کے علاقے میں خودکش حملے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ایک تو انتظار اور وہ بھی خودکش بمبار کا ۔لیکن ہماری معمولات میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا تھا ۔اس دوران پشاور کے ایک میڈیکل سٹور میں جاب کرنے والے میرے چھوٹے بھائی کا کال آیا ,کال اٹینڈ کی تو رو رہے تھے میں نے پوچھا کیا ہوا ہے کیوں رو رہے ہو ,روتے روتے جواب دیا کہ پولیس والے ہماری دکان پہ آۓ تھے ہم سے یہ کہکر دکان بند کروا دی کہ اس بازار میں خود کش حملہ آور کے داخل ہونے کی اطلاغات ہیں بھاگ جاو ,میں نے کہا اب کدھر ہو ,جواب دیا اپنے کمرے میں ,میں نے پوچھا تو پھر روتے کیوں ہو کہنے لگے بس ڈر کی وجہ سے۔ میں سوچنے لگا واقعی ہم فوجی ہی بڑے احمق ہوا کرتے ہیں ۔ بعد میں میرے یہ چھوٹے بھائی بھی احمقوں کے ٹولے میں شامل ہوگئے لیکن ایسی کال دوبارہ نہیں کی ۔ محمد شیراز غریب

ٹیچر کا کوئی گریڈ نہیں ہوتا

گذشتہ کافی عرصے سے دیکھا جاۓ تو وطن عزیز میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ سراپا احتجاج ہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال ,تاجروں کا شٹر ڈاون ,نرسوں کا احتجاج ,وکلاء کا بائیکاٹ معمول کی باتیں ہیں ۔ان سب کی دیکھا دیکھی چندسالوں سے ٹیچرز بھی سڑکوں پر ہیں کبھی تنخواہ میں اضافے کیلئے کبھی گریڈ بڑھانے کے مطالبے کو لیکر کبھی مستقلی کا پروانہ حاصل کرنے کیلئے کبھی الاونسز میں اضافے پر حکومت کو مجبور کرنیکی کوشش میں ,ایک ٹیچر بھی انسان ہوتا ہے اسکی بھی وہی ضروریات اورخواہشات ہیں جو سبھی انسانوں کے ہیں ۔ لیکن ٹیچرز کا مذکورہ بالا مسائل کو لیکر یوں سڑکوں پر آنا بھی مناسب نہیں ۔ٹیچر کا گریڈ کون مقرر کر سکتا ہے وہ یہ گریڈ کس سے مانگ رہا ہے ٹیچر کا گریڈ وہی ہے جو اسکے سٹوڈنٹس اسے دیتے ہیں ۔میں گریڈ 8 کا ایک ٹیچر ہوں مجھے اس پر فخر ہے ۔ جب سکول کے بریک ٹائم پہ پلے گروپ کی ننھی منی گڑیا وجیہہ میرے گلے سے لگ کے کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں لنچ لانا بھول گئی تھی بھوک لگی ہے تو میں خود کو دنیا کے سب سے بڑے گریڈ کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے لگتا ہوں ۔بھلا یہ محبت ایک بائیس گریڈ کے افیسر کے نصیب میں کہاں جب میرے بچے یوم اساتذہ کی