Posts

FCPS Mastuj

Image
  FCPS Mastuj The school is a place where the minds are molded and the destiny of a nation is shaped. It is the place to impart education in a systematic and ordered way to the upcoming generation. The mode and the manner and the system of education in a school is a decisive factor in the future of a nation. Fcps Mastuj is one of the best school in whole mastuj.  The teachers here are very competent and cooperative. They listen at you. They are not the teachers alone but they are like the good friends who understand every single problem of students.  That’s why we always love our school deeply. Extra curricular studies are also the vital part of education. Fortunately, our tops in providing the excellent extracurricular activities. Here, various extra curricular activities are routinely held. The activities like, quiz competition, speech and debates, writing competition, sports events, national celebration events, tabloids, dramas etc are often held. The purpose of these activities is

Photos gallery of fcps mastuj

Image
FCPS Mastuj Photos Gallery   Here are some of the photos of our school which you must want to see.     Please follow us and comment us below if you have any trouble.

Videos

Image
          Here are some videos from fcps mastuj.

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں

یہ اپریل 2007 ء کی بات ہے جب میں دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن میں فرائض منصبی انجام دے رہا تھا ناردرن سکاوٹس کے جوان ہم سے کار چوکیداری کا چارچ لینے کیلئے پہنچ چکے تھے سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع حسیب پوسٹ کے اکلوتے اگلو (برفانی گھر) میں چترال سکاوٹس کے ہم تین اور ناردرن سکاوٹس کے تین جوان قیام پذیر تھے چاروں طرف سے تین سے چار فٹ برف میں گھرا یہ اگلو بیک وقت ڈرائنگ روم ,ڈائننگ ہال اور بیڈ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی تھی جب غروب افتاب کیساتھ جگلوٹ کے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے حوالدار عبدالروف ہوشیار پوزیشن میں نماز کی نیت باندھ لیتے ساتھ ہی میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا میرے اسماعیلی دوست شیر بائز بیٹھے بیٹھے حق بندگی کی ادائیگی میں مصروف ہوتے نور بخشی مسلک کے عمر رسیدہ نائیک اکبر بہت ساری رکعتوں کیلئےکمر کس لیتے ۔اور رمبور چترال کے ہمارے کیلاش دوست تعلیم زار ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہوتے میں نے اگلو کے دروازے پر مارکر سے "بین الاقوامی عبادت خانہ " لکھا ہوا تھا ۔ برداشت اور رواداری کا یہ منظر بڑا دلفریب ہے محمد شیراز غریب (ج

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں

فوجی زندگی کی خوبصورتیاں (فوجی بڑے احمق ہوتے ہیں ) 2008 کا سوات اپریشن چل رہا تھا سرسینئی چوک میں ہم دو دنوں سے ریڈ الرٹ پوزیشن میں تھے اطلاعات تھیں کہ ہماری ذمہ داری کے علاقے میں خودکش حملے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ایک تو انتظار اور وہ بھی خودکش بمبار کا ۔لیکن ہماری معمولات میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا تھا ۔اس دوران پشاور کے ایک میڈیکل سٹور میں جاب کرنے والے میرے چھوٹے بھائی کا کال آیا ,کال اٹینڈ کی تو رو رہے تھے میں نے پوچھا کیا ہوا ہے کیوں رو رہے ہو ,روتے روتے جواب دیا کہ پولیس والے ہماری دکان پہ آۓ تھے ہم سے یہ کہکر دکان بند کروا دی کہ اس بازار میں خود کش حملہ آور کے داخل ہونے کی اطلاغات ہیں بھاگ جاو ,میں نے کہا اب کدھر ہو ,جواب دیا اپنے کمرے میں ,میں نے پوچھا تو پھر روتے کیوں ہو کہنے لگے بس ڈر کی وجہ سے۔ میں سوچنے لگا واقعی ہم فوجی ہی بڑے احمق ہوا کرتے ہیں ۔ بعد میں میرے یہ چھوٹے بھائی بھی احمقوں کے ٹولے میں شامل ہوگئے لیکن ایسی کال دوبارہ نہیں کی ۔ محمد شیراز غریب

ٹیچر کا کوئی گریڈ نہیں ہوتا

گذشتہ کافی عرصے سے دیکھا جاۓ تو وطن عزیز میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ سراپا احتجاج ہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال ,تاجروں کا شٹر ڈاون ,نرسوں کا احتجاج ,وکلاء کا بائیکاٹ معمول کی باتیں ہیں ۔ان سب کی دیکھا دیکھی چندسالوں سے ٹیچرز بھی سڑکوں پر ہیں کبھی تنخواہ میں اضافے کیلئے کبھی گریڈ بڑھانے کے مطالبے کو لیکر کبھی مستقلی کا پروانہ حاصل کرنے کیلئے کبھی الاونسز میں اضافے پر حکومت کو مجبور کرنیکی کوشش میں ,ایک ٹیچر بھی انسان ہوتا ہے اسکی بھی وہی ضروریات اورخواہشات ہیں جو سبھی انسانوں کے ہیں ۔ لیکن ٹیچرز کا مذکورہ بالا مسائل کو لیکر یوں سڑکوں پر آنا بھی مناسب نہیں ۔ٹیچر کا گریڈ کون مقرر کر سکتا ہے وہ یہ گریڈ کس سے مانگ رہا ہے ٹیچر کا گریڈ وہی ہے جو اسکے سٹوڈنٹس اسے دیتے ہیں ۔میں گریڈ 8 کا ایک ٹیچر ہوں مجھے اس پر فخر ہے ۔ جب سکول کے بریک ٹائم پہ پلے گروپ کی ننھی منی گڑیا وجیہہ میرے گلے سے لگ کے کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں لنچ لانا بھول گئی تھی بھوک لگی ہے تو میں خود کو دنیا کے سب سے بڑے گریڈ کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے لگتا ہوں ۔بھلا یہ محبت ایک بائیس گریڈ کے افیسر کے نصیب میں کہاں جب میرے بچے یوم اساتذہ کی

Essay : Importance of trees.

Image
     Essay no: 2 Topic: Importance Of Trees Writer: Ekram Ullah Class: 10 th

Essay: Favorite personality

Image
 Essay : Favorite personality  Writer: Aida Class : 10th   

Essay : Dreams

Image
                Essay: Dreams Writer: Ekram Ullah Class: 10 th

Essay : Humility.

Image
       Essay: H umility Writer : Ekram ullah  Class : 10 th

یہ گتھی سلجھاو یاروں ۔۔۔۔

یہ گتھی سلجھاو یاروں ۔۔۔۔ آج ایک سوال ان دوستوں سے پوچھنا چاہ رہا تھا جو زیادہ تر عقل اور سائنس کے تابع ہیں۔ ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور بھائی قاری محمد نظار چترالی جو پچھلے سال مارچ کے مہینے میں ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ہم سے بچھڑ گیے تھے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے برنس گول کے قبرستان کو بھی نقصان پہنچ رہا تھا تو گاوں والوں نے باہمی مشاورت سے قبر کشائی کا فیصلہ کیا اور قاری صاحب کی لاش کو کسی محفوظ جگہ لے جاکے دوبارہ دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور تمام گاؤں والوں نے مل کے قاری صاحب کی لاش کو محفوظ مقام میں لے جاکے دوبارہ دفن کیا گیا ہے۔ قبر کھولنے کے کیا مناظر بیان کیے گیے وہ سب کچھ میں شیر نہیں کر رہا البتہ جس چیز کو سارے گاؤں والوں نے دیکھا ہے وہ یہ کہ قاری صاحب کی لاش 18 مہینہ گزرنے کے بعد صحیح سلامت تھی ۔ جسے ایک دو نہیں سارے گاؤں والوں نے دیکھا ہے ۔ اب میرا سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دو گرمیوں کا سیزن گزرنے کے باوجود ایک انسانی لاش 18 مہینوں تک قبر میں صحیح سلامت ہو۔ میرا ایمان اور جواب یہی ہے کہ ان اللہ علی کل شیئ قدیر۔۔ قاری صاحب حافظ قرآن اور درویش صفت انسان تھے قرآن

ڈاکٹر عبدالکلام کہتےہیں

ڈاکٹر عبدالکلام کہتے ہیں:  میں نے 22 سال تک پڑھایا۔  میں نے کبھی حاضری نہیں لی کیونکہ کلاس اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ طلباء کو خود ہی آنا پڑتا تھا۔  میں نے کبھی بھی کلاس روم میں خوف پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ کلاس روم طلباء کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔کوئی بھی طالب علم جو دیر سے آیا، میں نے شرکت کی اجازت دی، چاہے وہ کلاس ختم ہونے سے دس منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے ذمہ داری کا احساس۔  میں نے کبھی بھی لفظ کو دو بار سے زیادہ نہیں دہرایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہر کوئی اتنی گہرائی سے سن رہا ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ۔  میں نے کبھی بھی مکمل 90 منٹ تک نہیں پڑھایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اچھے، اوسط اور کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی مختلف ہوتی ہے۔  میں نے کبھی نقد جرمانہ نہیں کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ کلاس میں کوئی یتیم یا غریب بچہ ہوگا۔  میں نے اپنے طالب علموں کو کبھی اپنے دروازے کے پیچھے انتظار کرنے نہیں چھوڑا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہونا عزت نفس کو ختم کر دے گا۔  میں نے ہمیشہ اجتماعی سزا کو انفرادی سزا سے بہترسمجھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ گروہ ناقابل ف

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو بد بخت اور ملعون...

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو بد بخت اور ملعون ابولؤلؤ فيروز مجوسى جہنمی نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا !! طبيب نے كہا:  اے امير المؤمنين! وصيت كر ديجيے. اس ليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔ سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا:  ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى رسول تھے جن كو رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى، جس كو اللہ، اللہ كے رسولﷺ اور حذيفہؓ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا ... حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا. حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں. كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟  حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے  لگے:  اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے , ميں اس كو مرتے دم تك كسى كو نہيں بتا سكتا۔۔۔  سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے: حذيفہ! بلاشبہ يہ رسول اللہﷺ كا راز ہے. بس مجھے اتنا بتا ديجيے كہ رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين كے جدول ميں شمار كيا ہے يا نہيں؟  حذيفہ كى ہچ

آج کے لبرل معاشرے کی تلخ حقیقت...

آج کے لبرل معاشرے کی تلخ حقیقت... ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺎ ﮐﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ : ﺟﻨﺎﺏ ﺟﺴﭩﺲ ﺷﻮﮐﺖ ﻋﺰﯾﺰ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﺲ ﮐﯽ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺠﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺧﻄﯿﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﺎ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﺒﺮﻟﺰ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﻮ ﮐﺪﮬﺮ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ remarks ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺎ ﮐﺮ ﻻﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﭩﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ wp ﺑﮭﯽ ﻓﺎﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﭘﺮﻭﭨﯿﮑﺸﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻓﺎﺿﻞ ﺟﺴﭩﺲ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺷﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺫﻟﯿﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﮯ ﺳﮯ ﺟﺐ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﻦ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻓﺎﺿﻞ ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﮟ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﻖ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﭘﮧ ﻓﺎﺿﻞ ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﺷریعت  ﮨﮯ۔ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻭﻟﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿ

موبائل فون۔

دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو  1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آ پشن نہیں ہوتا تھا۔ پھر جب موبائلز میں sms یعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔ پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3G یعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔ اور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور مویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4G یعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیا۔۔۔ اور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5G کی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔  آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا  جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔  آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں ۔۔۔ الغرض موبائل پر ایک وقت میں مثلا 10 کام بھی

سورۃ الکوثر❤

سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے، سوچا آپکے ساتھ شئیر کرلوں سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملے الفاظ 10ہیں۔ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے لیکن جب - سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔ - سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔ - سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔ - اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔ - وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔ - اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔ - قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔ سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا " فصل لربک وانحر" "پس نماز پڑہو اور قربانی کرو" وہ دراصل قربانی کا دن ہے اللہ کی شان کے یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، ج

یہ آگ تم نےخود بھڑکائی تھی

*یہ آگ تم نے خود بھڑکائی تھی* تحریر *اوریا مقبول جان* آج سے چند سال پہلے ایک موبائل کمپنی کے اشتہار میں ایک ایسا گھرانہ دکھایا گیا تھا، جس میں ایک لڑکی جو کرکٹ کی شوقین ہوتی ہے، وہ کرکٹ میچ کھیلنے کو جانے لگتی ہے تو ماں اس سے کہتی ہے کہ ’’بیٹا اپنے باپ سے اجازت لے لو‘‘، تو وہ باپ کو اپنے شوق کے راستے کی رکاوٹ بتاتے ہوئے اس خیال کو نفرت سے جھٹک دیتی ہے، اور روانہ ہو جاتی ہے۔ اشتہار میں اس کے بعد اس لڑکی کے میچ کھیلنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ بحیثیت بائولر اس کی تیز رفتاری کو کیمرے کی ’’بدمعاشیوں‘‘ سے ایکسپوز‘‘ کیا جاتا ہے۔ پوری دُنیا میں کرکٹ میچ دکھاتے وقت کیمرے کا رُخ بیٹ مین کی طرف ہوتا ہے، اور بائولر کو پیچھے سے دوڑتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، لیکن اس اشتہار میں خصوصاً کیمرے کو خاتون کے سامنے رکھ کر سلو موشن میں دوڑانے کے مناظر دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چلو یہ سب کچھ تو ’’مال‘‘ بیچنے کی مجبوری ہو سکتی ہے، جسے عرفِ عام میں مارکیٹنگ کہتے ہیں۔ لیکن اس اشتہار کا انتہائی گھنائونا پہلو یہ تھا کہ وہ لڑکی جو باپ سے پوچھے بغیر گھر سے چلی جاتی ہے، اسے ایک کامیاب کرکٹر بنا کر ایک پیش کیا جاتا

ایک اچھی تحریر

ایک اچھی تحریر ‏پاکستان میں اردو کی ایک کتاب KG میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، جس میں "ڈ" سے ڈاکٹر بتایا گیا ہے حیرت ہے کہ نصاب تیار کرنے والوں کو حرف "ڈ" سے اردو کا کوئی لفظ ہی نہ مل سکا اور "ڈ" سے ڈاکٹر (جو کہ اردو زبان کا لفظ ہی نہیں ہے) پر گزارہ کر لیا گیا اب سوشل میڈیا پر "ڈھول" پیٹ کر‏اس بات کا "ڈھنڈورا" کرنا پڑ رہا ہے کے "ڈ" کے الفاظ "ڈالنا" کوئی اتنا مشکل امر بھی نہیں ہے اگر آپ کی ناراضی کا "ڈر" نہ ہوتو "ڈ" کو ذرا "ڈھونڈنا" شروع کریں *"ڈانٹ ڈپٹ" سے کام نہ چلے تو "ڈنڈا" بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ "ڈ" سے "ڈھول" نہ پیٹیں، "ڈگڈگی" نہ بجائیں، الفاظ کا "ڈھیر" ‏اکھٹا نہ کریں تو بھی اردو کے کنویں سے ایک آدھ "ڈول" ہی کافی ہوگا۔ "ڈبا" سے "ڈبیا" تک، "ڈراؤنے" قوانین سے لے کر تعلیم کے "ڈاکوؤں" تک، امیروں کے "ڈیروں" سے لے کر غریب کی "ڈیوڑھی" تک اور پھولوں کی "ڈالی&q

اردو کے استاذ👴

اردو کے استاذ👴 گھر آئے تو بیوی سے پوچھا بیگم آج کیا پکایا ہے؟ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عورت 👩 نے جواب دیا خاک پکائی ہے 😕 استاذ 👴 صاحب بولے خاک کو الٹ کریں تو کاخ بنتا ہےکاخ فارسی میں محل کو کہتے ہیں محل کو الٹا کریں تو لحم بنتا ہےلحم کو اردو میں گوشت کہتے ہیں اچھا بیگم آج گوشت پکایا بے 😋 جواب میں بیگم 👩 نے کہا کہ اگر گوشت کو الٹا کریں تو تشوگ بنتا ہے اور تشوگ سنسکرت میں سوٹے کو کہتے ہیں 😬 یہ کہہ کر بیگم اٹھی ہی تھی کہ شوہر اگلی بات سمجھ گئے پھر جو ہوا وہ اردو ادب کی ایک الگ تاریخ ہے...... 😜😝

لطائف ایسے بھی ہوتے ہیں

لطائف ایسے بھی ہوتے ہیں...!! کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا آپ کے بڑے بھائی کا تخلص گوہر ہے دوسرے بھائی کا جوہر ہے آپ کا کیا تخلص ہے؟ مولانا نے فورا جواب دیا "شوہر" اکبر الہ آبادی کو کسی نے خط لکھا اور آغاز میں انہیں قبلہ لکھ کر مخاطب کیا، اکبر نے جواب میں لکھا آپ نے مجھے قبلہ لکھا جو مسلمانوں کے لئے قابل احترام جگہ سمجھی جاتی ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا آپ کو کیا لکھوں، میں یہی لکھ سکتا ہوں، وعلیکم السلام جامع مسجد,, پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟ اس پر مولانا گڑبڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہو گی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گزار دئیے تو دو چار سال اور گزار لیجئے,, ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ : میں ناکام شاعر ہوں۔ اس پر مشفق خواجہ ن

منقول بندہ ناچیز بطور ایک پرائمری ٹیچر

منقول بندہ ناچیز بطور ایک پرائمری ٹیچر 😂😂😂😂  آج حسب معمول جیسے ھی میں نے اپنی کلاس ”کچی شریف“ میں قدم رنجہ فرمایا تو کچی کے جیالوں کی تعداد خلاف معمول 120 کے ہندسے کو کراس کر رہی تھی،جن میں دو تہائی اکثریت اُن مجاھدین کی تھی جو زندگی کی صرف دو یا تین بہاریں دیکھ چکے تھے،اور جوتی اور شلوار کی قیود سے آزاد یہ حریت پسند اپنی بڑی بہن یا بھائی کے ساتھ بطور پروٹو کول آفیسر تشریف لائے تھے ،بہر حال جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو کمرے کے کسی گوشے سے ”کلاس سٹینڈ“کا ایک نعرہ مستانہ بلند ھوا اور پندرہ، بیس بچے اٹھ کھڑے ھوئے باقی تمام رمُوز و دنیا سے آزاد اپنی خانہ جنگی میں مصروف رھے،چنانچہ اپنے وجود کی موجودگی کا احساس دلانے کیلیے میں نے ”اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ“‎ کی باآواز بلند صدا لگائی جس کا جواب دو چند نے دے کر بھرم رکھ لیا تو جناب جیسے ہی میں کُرسی پر براجمان ہوا ،کلاس روم کمرہٕ عدالت میں تبدیل ھو گیا ،30،35 مدعیان نے بیک وقت اپنا اپنا استغاثہ دائر کر دیا ،کسی نے پنسل تراش “گم ھونے کی شکایت کی تو کسی نے حتکِ عزت کا دعوی دائر کیا، کسی نے گالیوں کی بوچھاڑ سے اپنا چھ

ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐو اطلاع ملی کہ ﮐﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻋﺎﻡ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ "ﻣﺤﺘﺮﻡ، ﭘُﻞ ﭼﺮﺧﯽ (ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ) ﺗﮏ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻟﻮﮔﮯ؟" ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ، "ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﺮﺥ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔" ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 20 ؟ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : اﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 25 ؟ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ: ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 30 ؟ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 35 ؟ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺟﯽ ﮨﻮ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻨﺮﻝ ﮨﻮ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﺷﻞ ﮨﻮ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺍُﮌ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻞ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﮔﮯ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺅ ﮔﮯ ؟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ :

ﺍﺳﺘﺎﻧﯽ ﺟﯽ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮕﯿﺘﺮ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺑﯽ ﺧﻂ

:ﺍﺳﺘﺎﻧﯽ ﺟﯽ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮕﯿﺘﺮ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺑﯽ ﺧﻂ   ﻣﺎﺋﯽ ﮈﺋﯿﺮ ﺗﺎﺝ ﺍﻟﺪﯾﻦ،  ﺳﻼﻡِ ﻣُﺤﺒﺖ،  ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺍِﻣﻼ ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘُﻮﺭ ﻣﺮﺍﺳﻠﮧ ﻣِﻼ، ﺟﺴﮯ ﺗُﻢ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﮯ "ﻣُﺤﺒﺖ ﻧﺎﻣﮧ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴّﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﯾﮧ ﺧﻂ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮭﺎﺭے ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮯﺗﺮﺗﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮯﮈﮬﻨﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ﺍﮔﺮ ﺧُﻮﺩ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻟِﮑﮭﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ۔۔۔ ﺧﻂ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺁﺩﮬﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺍِﺱ ﻗﺪﺭ ﺩﺭﺩﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺲ! ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ .... ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﻟِﮑﮭﺎ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﻠﻤﯽ ﮔﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺷﺎﯾﺪ ﻋِﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻓِﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮔﺎﻧﺎ ﮨﯿﺮﻭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺳُﻨﻮ! ﭘﺎﻥ ﮐﻢ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﻭ۔ ﺧﻂ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﭘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﮬﺒﮯ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﭘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ہاﺗﮫ ﺩھو ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﺮﻭ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺍہِش ﮐﺎ ﺍﻇِﮩﺎﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﺣﻤﻘﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ہے، ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻇﺎﻟِﻢ ﺳﻮﺗﯿﻠﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ چومپڑی ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮ ﺭہا ہو،،، ﺍِﺱ ﯾﻘﯿﻦ کے ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍِﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﺮﻭ۔۔۔ ﯾﮧ &q

تعلیم و تربیت اور کرپشن.. ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

تعلیم و تربیت اور کرپشن ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی  آج وطن عزیز میں کرپشن یعنی بد عنوانی کا اتنا ذکر ہو رہا ہے کہ گویا ملک میں کرپشن کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔ 100سال پہلے یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ اوپر انگریز کی حکومت تھی۔ مقامی ریاستوں کے ہندو اور مسلمان منشی نیم خواندہ تھے۔ انگریز پڑھے لکھے لوگ تھے۔ کرپشن یا بد عنوانی کا نام کسی نے نہیں سنا تھا۔ 100سال بعد کرپشن کس طرح ناسور بن کر پھیلا؟ اس کی بنیاد کہاں رکھی گئی؟ میرا خیا ل ہے اور تجربہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے، مشاہدہ اسکی شہادت دیتا ہے کہ کرپشن کی بنیاد سکولوں ، کالجوں، مدرسوں، یونیورسٹیوں اور سروس اکیڈمیوں کے اندر رکھی جاتی ہے۔ ہمارے کسی بھی نظام کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے سے دیانت دار شہری باہر نہیں آتا۔ گھر پر جس کو دیانت داری کا سبق دیا گیا ہے وہ بھی یونیورسٹی ، مدرسہ اور اکیڈمی سے بددیانت بن کر نکلتا ہے۔ 100سال پہلے ہمارے لیڈروں، افسروں اور اساتذہ کرام کے جو حالات لکھے گئے ان میں صراحت کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا ذکر ہوتا ہے۔ انگریزی میں تعلیم کو Educationاور تربیت کو Trainingکہا جاتا ہے۔ 100سال پہلے تعلیم و تربیت کی اصطلاح بہ

ہم قصوروار ہیں

: ہم قصوروار ہیں ایک ہفتےمیں کراچی سے دو بچیاں لاپتہ ہوٸیں ۔ دونوں کے والدین نے شکایت درج کرواٸی کہ بچیاں اغوا ہوٸیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ دونوں اپنی مرضی سے گھر سے گٸیں ۔ ہوش حواس میں نکاح کر لیا اور سوشل میڈیا پر اعلان بھی کردیا۔ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے ۔ کیا واقعی یہ سب ماں باپ کو پتہ نہیں چلتا کہ بچی کیا کرنے جارہی ہے ۔   خدا کے واسطے خاندانی روایات کو واپس لاٸیے ۔ دادی کہاں ہے ۔ پھوپھی کہاں ہے ۔ جن کے ساتھ بچیاں سوتی تھیں اور کہانیاں سنتی تھیں ۔ ماں سے ڈرتیں تو دادی اور پھوپھی انکی رازداں ہوتی تھیں ۔ ماں سے بھی پہلے وہی بتاتی تھیں کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے ۔ کس سے ملنا ہے کس سے نہیں ملنا ۔ سر پہ دوپٹہ کب رکھنا شروع کرنا ہے ۔ کس عمر میں سینہ ڈھانپنا ہے ۔    اسکول جانے کے لیے محلے کے تانگے اور رکشے لگاٸے جاتے ۔ محلے داری کی بھی روایات تھیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ زرا سی دیر ہوجاتی تو ماں سے پہلے دادی بھاگی پھرتیں کہ بچی کا پتہ کرو دیر کیسے ہوگٸی اور اب شادی سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کون کون ہے ۔ دادی دادے کو چھوڑیں بیٹی والوں کو گھر میں ساس سسر بھی گوارا نہیں ۔  آج